حیدرآباد۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ راجیہ سبھا کی تین نشستوں کیلئے پارٹی امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دینے میں مصروف ہیں۔ باوثوق ذرائع کے مطابق فروری کے اواخر میں ہونے والے تین نشستوں کے چناؤ میں اہم طبقات کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ تین نشستوں کیلئے مختلف طبقات سے پارٹی میں کئی دعویدار موجود ہیں۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ کے سی آر نے اپنے بااعتماد رفقاء اور بعض ریاستی وزراء سے مشاورت کے ذریعہ بعض ناموں کو قطعیت دیدی ہے ۔ تاہم ان کا اعلان انتخابی اعلامیہ کی اجرائی کے بعد کیا جائے گا ۔ راجیہ سبھا کی جو تین نشستیں خالی ہورہی ہیں، ان میں تلگو دیشم کے سی ایم گنیش اور کانگریس کے آنند بھاسکر اور آنجہانی پی گوردھن ریڈی کی نشستیں شامل ہیں۔ ہر دو سال میں راجیہ سبھا کی تین نشستوں کیلئے انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ چیف منسٹر نے اسمبلی اور لوک سبھا انتخابات کے پس منظر میں امیدواروں کے ناموں پر غور کیا ہے۔ ایسے طبقات جن کی تائید آئندہ انتخابات میں ناگزیر ہے، انہیں راجیہ سبھا کی نشست دی جاسکتی ہے۔ چیف منسٹر نے حال ہی میں یادو طبقہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ راجیہ سبھا کی ایک نشست پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والی یادو کمیونیٹی کو دی جائے گی۔ چیف منسٹر کے اس اعلان کے بعد یادو طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی قائدین چیف منسٹر سے رجوع ہوئے اور اپنی دعویداری پیش کردی۔ ریاستی وزیر سرینواس یادو نے بھی راجیہ سبھا کیلئے بعض نام چیف منسٹر کو پیش کئے ہیں۔ دوسری نشست پر کسی مسلم قائد کو منتخب کرنے کا غالب امکان ہے کیونکہ حکومت کو 12 فیصد مسلم تحفظات کے بدلہ میں مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔ مرکزی حکومت سے 12 فیصد تحفظات کی منظوری کے امکانات دکھائی نہیں دیتے کیونکہ بی جے پی نے کھل کر مسلم تحفظات کی مخالفت کی ہے۔ انتخابات سے قبل مسلم تحفظات کا مسئلہ انتخابی موضوع بن سکتا ہے اور کانگریس پارٹی اس مسئلہ پر ٹی آر ایس کو گھیرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ لہذا کسی مسلم قائد کو راجیہ سبھا کیلئے منتخب کرتے ہوئے مسلمانوں کی تائید حاصل کی جاسکتی ہے۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے بیشتر اہم اقلیتی قائدین کو مختلف سرکاری اداروں میں فائز کیا گیا۔ لہذا راجیہ سبھا کی نشست کیلئے دعویداری کم ہے۔ بتایا جاتاہے کہ تلنگانہ وقف بورڈ کے صدرنشین محمد سلیم راجیہ سبھا کی نشست کے امکانی امیدواروں میں سرفہرست ہیں۔ ان کا شمار چیف منسٹر کے علاوہ وزیر آئی ٹی کے ٹی آر کے بااعتماد رفقاء میں ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے اقلیتی قائدین بھی راجیہ سبھا کی نشست پر دعویداری پیش کر رہے ہیں اور اس سلسلہ میں بعض وزراء کے ذریعہ سفارش کرائی گئی۔ اضلاع کے قائدین کا استدلال ہے کہ انتخابات میں پارٹی کو شہر سے زیادہ اضلاع میں اقلیتی تائید کی ضرورت پڑے گی۔ تیسری نشست کیلئے چیف منسٹر کے بھانجے سنتوش کمار کا نام پارٹی حلقوں میں گشت کر رہا ہے ۔ چونکہ ان کا تعلق ویلما طبقہ سے ہے، لہذا ان کی دعویداری یقینی سمجھی جارہی ہے۔ سنتوش کمار تلنگانہ کی تشکیل کے بعد سے چیف منسٹر کے سی آر کے انتہائی قریبی شمار کئے جاتے ہیں اور کئی اہم فیصلوں میں ان کا دخل ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر سنتوش کمار کو راجیہ سبھا کیلئے منتخب کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے بہتر تعلقات کی استواری کے لئے رابطہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سنتوش کمار تلگو چیانل ٹی نیوز کے سربراہ ہیں۔ جس طرح وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے مشیر کی حیثیت سے ڈاکٹر کے وی پی رام چندر راؤ نے حیدرآباد سے دہلی تک اپنی شناخت بنائی تھی ، اسی طرح راجیہ سبھا کے لئے انتخاب کے بعد سنتوش کمار بھی دہلی میں چیف منسٹر کے خصوصی قاصد کی طرح فرائض انجام دیں گے ۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل سے قبل ٹی آر ایس کے واحد رکن راجیہ سبھا ڈاکٹر کیشو راؤ تھے ۔ 2016 ء میں ڈی سرینواس اور کیپٹن لکشمی کانت راؤ کو راجیہ سبھا کیلئے منتخب کیا گیا۔ جاریہ سال تین نشستوں پر ٹی آر ایس امیدواروں کا انتخاب حکومت کیلئے الیکشن سے قبل آخری موقع رہے گا۔ اسمبلی میں ٹی آر ایس ارکان کی تعداد 80 ہے، لہذا تین نشستوں پر پارٹی امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ موجودہ تین ٹی آر ایس ارکان راجیہ سبھا میں دو کا تعلق منوروکاپو اور ایک کا تعلق برہمن طبقہ سے ہے۔ چیف منسٹر کے قریبی ذرائع کے مطابق آئندہ ماہ ہونے والے تین نشستوں کے چناؤ میں یادو ، مسلم اور ویلما طبقات کو نمائندگی دی جاسکتی ہے۔ ریڈی طبقہ کی جانب سے بھی چیف منسٹر پر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ تاہم انہیں اسمبلی اور لوک سبھا کی نشستوں میں مناسب نمائندگی کا تیقن دیا جارہا ہے۔