رانی وکٹوریہ کے تاج میں کافی اہمیت کا حامل نگینہ تھے عبدالکریمی نامی ایک ہندوستانی جو رانی کے لئے نہ صر ف سالن تیار کرتے تھے بلکہ اُردو بھی سیکھاتے تھے ۔رانی نے خاموشی کے ساتھ انہیں اپنے ساتھ جوڑنے کی بھی کوشش کی ۔وکٹوریہ اور عبدال کی مصنف شرابنی باسو نے منی مگدھا ایس شرما کو فلم جوڈی ڈنچ میں ان کے رشتہ کو پیش کئے جانے سے ہٹ کر بھی بہت کچھ باتیں بتائی ہیں۔ہندوستان میں مقبولیت کے برعکس‘ آپ کی کتاب رانی وکٹوریہ کے ہندوستان کے تئیں جذبات کا اظہارکرتے ہیں ۔ کیا آپ اس کے متعلق کچھ بتاسکتی ہیں؟۔
وہ اس وقت یقیناًسب سے اوپر تھی اس کے علاوہ عدالت اور انتظامیہ میں سب سے ہٹ کر بھی تھیں۔ اور یہ سچ ہے کہ شاہی عدالت کے دلت میں ایک نوجوان ہندوستانی صاف طور پر دیکھائی دیتا تھا۔ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا او رنہ آج تک ہوا ہے۔
لہذا عبدال ہندوستان میں ان کی دروازہ تھے؟
رانی وکٹوریہ نے ہندوستان کو جاننے کے لئے اُردو سیکھی مگر آج کچھ ہندوستانی اُردو کو فراموش کررہے ہیں‘ اس کو غلامی کے دور کی زبان کہہ رہے ہیں‘ دوسروں کے برعکس آپ اس کے متعلق کیاکہتے ہیں؟
میں سمجھتی ہوں کہ یہ کافی اہمیت کی حامل بات ہے کہ رانی وکٹوریہ نے 13سالوں تک اُردوسیکھی۔ یہ وکٹوریہ تاریخ کو وہ حصہ جس کے متعلق کوئی نہیں جانتا۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ایک عظیم اور خوبصورت اُردو کو درکنار کیاجارہا ہے۔ یہ ہندوستان اور برطانیہ دونوں ممالک کی مشترکہ تاریخ ہے جس کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی مہاراجوں کے ساتھ وکٹوریہ کے تعلقات کے متعلق ہمیں بتائیں۔
مذکورہ رانی کے ہندوستانی مہاراجوں کے ساتھ بہتر تعلقات تھے۔ اکثر وہ ان کے پاس جاتی اور کئی مہارجاؤں کو وہ اپنے جوبلی تقاریب میں مدعو کرتے تھے۔ ان کے پاس مہاراجہ جودھ پور سر پرتاب کا بڑا احترام تھا۔مہاراجہ کوچ بہار نرپیندر نارائنہ اور ان کی پتی سنیتی دیوی سے رانی وکٹوریہ بڑے شوق سے ملاقات کرتی تھی۔ سنیتی دیوی وہ پہلی ہندوستانی مہارانی تھی جنھوں نے برطانیہ کو دورہ کیا اور1887میں گولڈ جوبلی تقاریب میں مہمانِ خصوصی کے طورپر مدعو کی گئی۔پنجاب کے آخری نوجوان حکمران مہاراجہ دلیب سنگھ سے ان کا خاص رشتہ تھا‘ وہ پنچاب کے زوال کے بعد ان کے پاس ہی جاکر رہ گئے تھے‘ دلیپ سنگھ ان کے پاس باغی کیفیت میں گئی تھے مگررانی نے ان کی پتنی او ربچوں کے ساتھ اپنے پاس رکھ لیا۔
اپنی زندگی کے اختتامی دور میں دلیپ سنگھ فرانس گئے اور اپنے اس عمل پر معافی مانگی ۔ رانی نے انہیں معاف توکردیا مگر اس سارے واقعہ نے رانی کو شدید ٹھیس پہنچائی تھی۔
آپ نے لکھا کہ 1901میں رانی کی موت کے بعد عبدال اور تم ہندوستانیوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افر اد نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ کیایہی وجہہ ہے آج بھی برطانیہ میں غیر سفید وں کیساتھ اس طرح کا سلوک کیاجاتا ہے؟۔
کنگ ایڈورڈ ہشتم نے عبدال کو لکھے وکٹوریہ کے تمام مکتوبات کو نذر آتش کردیا اور عبدال کے گھر پر دھاوے کے احکامات جاری کئے ۔
دوسرے ہندوستانیو ں کی طرح عبدال نے بھی جانے کی بات کہی۔ اچانک وہاں پر مزید کوئی رنگ برنگی پگڑیاں نہیں تھی اور نہ ہی شاہی محل میں سالن پک رہے تھے۔ وہاں پر ’’ بیرونی لوگ گھر جاؤ‘‘ نمایاں دیکھائی دے رہا تھا۔
نسل پرستی آج بھی نہ صرف برطانیہ میں جاری ہے بلکہ ساری دنیا کا یہی حال ہے لہذا کہانی آج بھی اسی سے وابستہ لگتی ہے